حوزہ نیوز ایجنسی| عزائے فاطمہ (س) کے ایام بڑی تیزی سے رواں دواں ہیں۔ علمائے کرام، ذاکرین، مقررین، و شعراء کرام اپنے اپنے ہنر کے جوہر بکھیر رہے ہیں، اس میں زیادہ تر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی فضیلت، عظمت، عجائبات، کمالات کا تذکرہ گفتگو کا مرکز ہے۔
یہ حقیقت بھی ہے کہ جناب فاطمتہ الزہرا کا قرآن کریم کی آیات مبارکہ میں قصیدہ ہے، آپ تاجدار انبیاء و ختم المرتبت کی پارۂ جگر، امام المتقین کی شریک حیات، نوجوان جنت، حسنین و کریمین کی مادر گرامی ہیں لیکن ان سب کے باوجود جس صفت حمیدہ کی طرف آج کی خواتین کے سامنے پیش کرنا ہے وہ ہے کردار فاطمہ سلام اللہ علیھا کیونکہ ان کے شانوں پر ایک فرد یا ایک خاندان کی تعلیم و تربیت منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کے قوم و ملت اور معاشرے و ملک پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا آج کے وقت کا مطالبہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے کردار پر منبر و محراب سے زیادہ مطلعِ سخن اور محور گفتگو قرار دیں اور ان صفات کو خواتین حضرات اپنے لیے قیمتی گوہر و نگین تصور کریں جو باعث عزت و تکریم و نجات ہے۔ رسول اکرم نے فرمایا "جو میری بیٹی فاطمہ۴ سے محبت رکھے گا وہ میرے ساتھ ہی جنت میں ہوگا اور جو میری بیٹی فاطمہ۴ سے دشمنی رکھے گا وہ دوزخ میں ہوگا۔" (بحار الانوار، جلد 27, صفحہ 116) اتباع کردار فاطمہ (س) ہی بہترین خوشنودی زہرا سلام اللہ علیھا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ان صفات پر غور، فکر و عمل کریں: قناعت پسندی، اخلاس، خود کو چھوٹا شمار کرنا، عفو در گزر، ماں کے قدموں کے تلے جنت، کنجوسی اور بخل کی مذمت، عورتوں کی بہترین حالت، عورت خدا کے قریب ہوتی ہے، شوہر سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنا، ایثار، خوف و خشیت الٰہی، عبادت وغیرہ
خواتین حضرات میں معاف کرنے اور برداشت کرنے کی قوت کم دیکھی گئی ہے۔ اس لیے خواتین حضرات غور کریں کہ اس دعا کے جملہ میں بی بی نے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا کہ وہ ذات واجب الوجود عفو و درگزر کو دوست رکھتا ہے۔ ہم بھی اس پر عمل کریں کہ اگر کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اسے معاف کر دیں۔ خواتین حضرات حضرت فاطمہ (س) کی سیرت میں ملاحظہ فرمالیں کہ کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام سے کوئی فرمائش نہیں کی، جتنا رزق گھر میں ہوتا اس پر قناعت کرتیں، اگر فاقہ کرنا پڑا تو فاقہ بھی کیا لیکن حضرت علی۴ سے مطالبہ نہیں کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بھی ایسی ہستی پر اپنا لطف و کرم عنایت فرمائی اور آسمان سے کھانا نازل کیا۔
اللّٰہ پاک عورتوں کو جتنی دولت اور زیورات سے آراستہ کرتا ہے ان میں زیادہ حسد و کینہ و غرور ہوتا ہے۔ لیکن ان کے پاس جتنے فضائل و کمالات ہوں اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو چھوٹا و حقیر سمجھے کیونکہ اس سے ایک بلند و بالا ذات ہے اور وہ خدا ہے۔ اس کے سامنے یہ ناچیز ہے۔ حضرت فاطمہ (س) فرماتی ہیں "خدایا! میرے نفس کو ذلیل و خوار کر اور اپنی شان و شوکت کو میرے وجود میں بزرگ و بلند قرار دے۔
خواتین حضرات جو عمل بھی انجام دیں اسے اخلاس کے ساتھ انجام دیں۔ اگر ریاکاری کے ساتھ انجام دیا جاۓ تو وہ عمل خدا کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) فرماتی ہیں کہ جو اپنی خالص و پاک عمل کو خدا کی بارگاہ میں بھیجتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے بہترین مصلحت کو اس پر نازل کرتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ آپ کے بابا نے فرمایا کہ کنجوسی اور بخل سے بچو کیونکہ یہ ایک بیماری ہے جو کریم اور سخاوت انسان میں نہیں پائی جاتی، کنجوسی انسان کو دوزخ میں ڈال دے گی۔ آپ نے فرمایا کہ ماں کی خدمت میں رہو کیونکہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ ماں راضی تو خدا راضی۔ ماں ناراض تو خدا بھی ناراض۔ آپ فرماتی ہیں کہ عورتوں کی بہترین حالت یہ ہے کہ وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی مرد اسے دیکھے۔ لیکن موجودہ حالات برعکس ہے۔ عورتیں بازاروں، دفتروں، اسکول، کالیجز، یونیورسٹی، شادی و ولیمہ میں برہنہ نظر آتی ہیں۔ مرد حضرات بے بس اور علماء کرام کا کردار مارجنل ہو کر رہ گیا ہے۔ اس معاملے کو خواتین حضرات اپنے حقوق کے پامالی میں خود ملوث ہیں۔ خدا کے نزدیک عورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں رہے۔
اس کردار پر مزید تفصیل کی ضرورت ہے۔ بحار الانوار، جلد 43, صفحہ 92 میں موجود ہے۔ حضرت فاطمہ (س) فرماتی ہیں کہ کیا بہترین درس ہے ہماری خواتین کے لیے نامحرم مرد سے دور رہیں۔ ان کی نظر ان پر نہ پڑیں اور نہ ہی ان کی نظریں ان پر پڑیں اور اپنے گھر میں رہیں بازاروں و کوچوں میں جانے سے بہتر ہے کہ گھر میں رہ کر قرب الٰہی حاصل کریں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے قول پر چلنے سے گناہوں سے محفوظ رہیں گی۔ اگر گھر سے باہر جانا ہی ہے تو پردہ سے جائیں۔
آجکل کی خواتین حضرات اس فقرے پر توجہ مرکوز کریں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا حضرت علی علیہ السلام سے فرماتی ہیں کہ مجھے رسول خدا نے منع کیا ہے میں آپ سے کسی چیز کی درخواست یا طلب کروں۔ اگر کوئ چیز لے آءیں تو ٹھیک ہے اور نہ لاءیں تو ان سے مطالبہ نہ کرنا۔ مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کروں جس کی آپ قدرت نہیں رکھتے۔ اس سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خواتین کو اپنے شوہر سے ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جس کی وہ قدرت نہیں رکھتا اور اپنے شوہر کو کسی ایسے کام کی تکلیف نہ دیں جو ان کی حیثیت سے زیادہ ہو۔ قناعت پسندی کو اپنا شعار زندگی بناءیں، ازدواجی تعلقات بہتر ہوں گے۔ قناعت پسندی سے دوری کشیدگی کی وجہ ہے۔ شادی میں کمی، رنجش و طلاق میں زیادتی ہے۔
آج کی خواتین حضرات کے لیے ضروری ہے کہ ایثار فاطمہ (س) اپنی زندگی میں استعمال کریں۔ جب آپ کردار فاطمہ کا مطالعہ کریں گی تو زندگی بہتر سے بہترین ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ سیرت فاطمہ ہم سب کے لیے نمونہ عمل ہے۔ شادی کا نیا لباس فقیر کو دے دیا۔ یہ عمل انجام دے کر ہمیں درس دیا کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہ دوسروں اور کمتر کے لیے پسند کرو۔ سورہ آل عمران کی آیت مبارکہ نمبر 92 میں اللّٰہ تعالیٰ فرما رہا ہے "ہرگز تم نیکی کے درجہ تک فاءز نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ جو چیز تمھیں پسند ہے اس میں سے انفاق کرو۔
آپ دیکھیں ہمارے معاشرے میں وہ چیزیں دی جاتی ہیں جو خود کا ناپسند، پرانی، خراب یا کم قیمت کی ہو۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنا قیمتی گلو بند فقیر کو دے دیا۔ خود بی بی فاطمہ اور گھر والوں نے کھانا نہیں کھایا لیکن بھوکے فقیر کو کھانا دے دیا جن کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی: "اور (یہ لوگ ہیں) جو اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے اور انھیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔"
آخر میں خواتین حضرات کے لیے یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے دل میں کس قدر خوف الہٰی تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا چنانچہ آپ جب عبادت میں مشغول ہوتی تھیں خاص طور سے نماز شب میں آپ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری رہتے تھے اور بدن میں لرزاں طاری رہتا تھا اور نماز کے بعد آنکھوں میں اشک۔ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے اور مومنین کے لیے دعاۓ خیر کرتی رہتیں۔ یہ تھا کردار فاطمہ (س)۔
اس کے علاوہ والد کی خدمت، شوہر کے حق کے لیے آواز بلند کرنا، بچوں کی تربیت، خادمہ کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، صابرہ، شاکرہ، عابدہ، عالمہ، صدیقہ، اور طاہرہ و دیگر صفات پر بھی خطابت، مکالمہ، سیمنار، سمپوزیم و گفتگو کا انعقاد، غور و فکر بھی لازمی ہے۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کا قصیدہ ام الکتاب پڑھ رہا ہے۔ آیات مودت، مباہلہ، طعام، تطہیر، ذی القربیٰ، مرج البحرین، ایثار، شجرہ طیبہ، صراط مستقیم، تعلیم اسما، صبر اور لیلتہ القدر، فضائل اہل سنت کی روایات میں اور اہلبیت علیہم السلام کی روایات میں قابل تحقیقی موضوعات ہیں۔
حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی گھریلو کاموں میں مصروفیات اور بیحد محنت و مشقت کے سلسلے میں امام المتقین، شوہر بتول سرور کائنات سے فرما رہے ہیں، اے نبی خدا! میں ساری بات آپ کو بتاتا ہوں در اصل یہ چکی چلاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں نشان پڑ گئے ہیں اور مشک میں پانی لانے کی وجہ سے گلے پر بھی اس کے نشان ابھر آیا ہے اور گھر کی صفائی ستھرائی کے سبب ان کے کپڑے بھی میلے ہوجاتے ہیں اور چولھے پر کھانا بنانے کی وجہ سے بھی کپڑے میلے ہی رہتے ہیں ان سب کام کی وجہ سے حسنین کو وقت نہیں دے پاتی ہیں۔ آج کی خواتین جنت الفردوس میں داخل ہونے کی متمنی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے کردار کا مطالعہ کا مطالبہ کرتا ہے۔
(عورت) اگر بیٹی ہے تو رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث، اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت لیکن فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہ کی شان و شوکت دیکھئے: اس باپ کے لیے رحمت جو خود رحمت العالمین ہیں، اس شوہر کے لیے نصف ایمان جو خود کل ایمان ہیں اور آپ کے قدموں میں ان بیٹوں کی جنت ہے جو جنت کے سردار ہیں۔
کتنا بلند ہے بخدا کردار فاطمہؑ، جزو رسالت و امامت، صدیقہ کسا۶، فتح مباہلہ، تفسیر و شرح آئینہ تطہیر، صورت کوثر، معراج پیمبر کی بہشتی سوغات، تفسیر میں قرآن کی تنوین ایماں، اسی کے گھر سے جاری چشمۂ نور ہدایت، عالمین عورتوں کی سردار شفیعہ روز محشر، نور پیغمبر، لخت و گوشۂ قلب رسولؐ، کمال عفت و عصمت بقائے دیں ہے ترویج شریعت، وہ ہے کون و مکاں، کلام خالق کائنات کی کونین، قرآن ہے زبان کنیزان فاطمہؑ، وہ ہیں فاطمہؑ جو پردہ نشین ہوکر بھی دین کو محفوظ کر گئیں۔
مندرجہ بالا تحریر سے سیدہ فاطمہ زہراؑ کے کردار لگ بھگ قطرہ بھر کا احاطہ کر چکے ہوں گی۔ راقم الحروف کی دلی خواہش ہے کہ مندرجہ ذیل تحریر سے عالم اسلام کی تمام خواتین حضرات چاہے وہ دنیا کی کسی خطہ کی باشندہ ہوں، پارۂ جگر رسولؐ کے کردار کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔ ان روشنی میں اپنی زندگی، خاندان کے افراد کی زندگی، اپنے والدین، شوہر، فرزند، دختر، کنیز، پڑوسی اور دیگر رشتہ داروں کی دنیاوی و اُخروی زندگی کو متاثر کر ان افراد کی زندگی کو ترتیب، تشکیل، آراستہ، مہزب و سنوار سکتی ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمہؑ کی نادر و نایاب گوہر سے مزین کردار جیسے اللہ سبحانہ کی شب و روز عبادت، زہد، تقویٰ، حق کی حفاظت، ایثار و رضا، صبر و شکر خدا، ہر خاتون اپنے کسب کمال کے لیے ان خصوصیات کا اتباع کرتے ہوئے اپنے آپ کو چراغ ہدایت کے لیے مثبت و مثالی کردار تمام خواتین کے لیے نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش و سعی کر سکتی ہیں۔
فاطمہ زہراؑ سلام اللہ علیہا کے کردار کو سمجھنے اور آپؑ کو نمونۂ عمل جاننے کے لیے صرف اور صرف علما ٕ کرام و ذاکرین کی خطابت اور شعراء کرام کے اشعار کو ہی کافی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ خود بھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔